کمپیوٹر خریداری کیس: وومن یونیورسٹی اسکینڈل میں نئی پیشرفت
اسلام (سپیشل رپورٹر) خلاف ضابطہ پانچ کروڑ سے زائد مالیت کے کمپیوٹرز اور ملٹی میڈیا خریدنے کا معاملہ، وومن یونیورسٹی ملتان کی پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے گلے پڑ گئی، چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار کی مدد بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔ تفصیل کے مطابق یونیورسٹی کے پرچیز سیکشن نے 19 اکتوبر 2023 کو مختلف اشیا کی خریداری اور سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے لئے ایڈمن اپروول اور ٹینڈر کی تشہیر کی منظوری کے لئے تحریری طور پر لکھا۔ پرچیز سیکشن کی جانب سے بھیجی جانے والی سمری میں چیئرپرسن کمپیوٹر سائینس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے آئی ٹی ایکوئپمنٹس جن میں انٹل کمپنی کی تھرٹین جنریشن کور آئی سیون کے 95 کمپیوٹر بمع ایل سی ڈی، 50 کمپیوٹر بغیر ایل سی ڈی کے علاوہ کمییوٹر سائینس، آئی ایم ایس، ماس کام اور کیمسٹری ڈیپارٹمنٹس کے لئے ایک ایک ملٹی میڈیا پروجیکٹر کی خریداری تجویز کی گئی تھی۔
ورکنگ پیپر کے مطابق ایل ای ڈی کے ساتھ ایک کمپیوٹر کی مالیت تین لاکھ 30 ہزار روپے، بغیر ایل ای ڈی کے ساتھ ایک کمپیوٹر کی مالیت دو لاکھ 80 ہزار جبکہ ایک ملٹی میڈیا پروجیکٹر کی مالیت دو لاکھ روپے تجویز کی گئی تھی۔ مجموعی طور ان سب اشیا کی خریداری کا تخمینہ 4 کروڑ 61 لاکھ 50 ہزار جبکہ مجموعی طور پر آئی ٹی ایکوئپمنٹس کی خریداری پر 4 کروڑ 82 لاکھ روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا جبکہ مجموعی طور پر 5 کروڑ 22 لاکھ 96 ہزار نو سو روپے کی اشیا کی خریداری تجویز کی گئی تھی تاہم جب یہ معاملہ ٹریژار آفس پہنچا تو 18 اکتوبر 2023 کو ٹریژار نے لکھا کہ بجٹ ایلوکیشن کے مطابق آئی ٹی ایکوئپمنٹس کی خریداری کے لئے محض ڈیڑھ کروڑ روپیہ موجود ہے تاہم یونیورسٹی سٹیچوز کے مطابق ریسرچ کے لئے آئی ٹی ایکوئپمنٹس کی خریداری کی جا سکتی ہے یوں ڈویلپمنٹ فنڈ سے ان ایکوئپمنٹس کی خریداری کی جا سکتی ہے انہوں نے تجویز کیا کہ یونیورسٹی کے پاس موجود سات کروڑ کے ڈویلپمنٹ فنڈز میں سے ساڑھے تین کروڑ کو اس مقصد کے لئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے ۔
جس پر اسی روز کلثوم پراچہ جن کے پاس وائس چانسلر کا ایکٹنگ چارج تھا نے ڈویلپمنٹ فنڈز کو اس مقصد کے لئے استعمال میں لانے کی اجازت دیدی یوں 23 جنوری 2024 کو پرجیز سیکشن نے لکھا کہ تمام پروسیجر مکمل کرنے کے بعد ایم ایس سعد ٹریڈرز کو کمپیوٹرز، ایل ای ڈیز اور ملٹی میڈیا پروجیکٹرز اور ایم ایس ایڈوانس کیمونیکیشن ٹیکنالوجیز کو پرنٹرز کی خریداری کا ٹھیکہ دیدیا گیا ہے جس کے مطابق ایل ای ڈی کے ساتھ ایک کمپیوٹر کی قیمت 3 لاکھ 29 ہزار 723 روپے جبکہ بغیر ایل ای ڈی کے 2 لاکھ 79 ہزار 723 روپے جبکہ ملٹی میڈیا پروجیکٹر کی قیمت ایک لاکھ 64 ہزار 723 روپے ہے یوں مجموعی طور پر ایم ایس ٹریڈرز کو چار کروڑ 59 لاکھ 68 ہزار 727 روپے اور ایم ایس ایڈوانس کیمونیکیشن ٹیکنالوجی کو 15 لاکھ 84 ہزار 400 روپے کے ٹھیکے جاری کئے گئے ہیں جسکی منظوری 23 جنوری 2024 کو ایکٹنگ وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے دی۔
ذرائع کے مطابق جب ان سب بے ضابطگیوں کی اطلاع ہائر ایجوکیشن کمیشن تک پہنچی تو ایچ ای سی کے ایویلیوایشن ڈویژن نے اس بے ضابطگی پر اعتراض اٹھا دیا جس پر کلثوم پراچہ نے سینڈیکیٹ کی جانب سے 11 ستمبر 2023 کو خود کو دئیے گئے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے کمپیوٹرز کی خریداری کے حوالے سے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دیدی جس کا کنوینئر بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف زوآلوجی کے اس وقت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر علیم خان تھے جبکہ ممبران میں سابق وائس چانسلر بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ڈاکٹر طارق محمود انصاری، بی زیڈ یو کے شعبہ کیمیکل سائینسز کے پروفیسر مظہر حسین ، ڈائریکٹر مانیٹرنگ ایچ ای سی یا ان کے نمائندے اور رجسٹرار وومن یونیورسٹی تھیں جبکہ اسسٹنٹ رجسٹرار محمد کامران کمیٹی کے سیکریٹری قرار پائے۔ کمیٹی کو پانچ دن کے اندر کمپیوٹرز کی خریداری کے حوالے سے حقائق اکٹھے کرنے اور اس بات کا تعین کرنے کہ کس نے کہاں حقائق کو چھپایا کا ٹاسک سونپا گیا۔
ذرائع کے مطابق اس بیچ ڈاکٹر کلثوم پراچہ کو چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار کی حمایت حاصل ہو گئی جو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر فرخندہ منصور کو وومن یونیورسٹی کی وائس چانسلر تعینات کروانے کی تگ و داو میں لگے ہوئے تھے یوں ڈاکٹر پراچہ نے پہلی کمیٹی کو پس پشت ڈالتے ہوئے 29 مئی 2024 کو ایک اور کمیٹی تشکیل دیدی جس کے چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن جو کہ یونیورسٹی سینڈیکیٹ کے بھی ممبر ہیں قرار پائے جبکہ ممبران میں ڈویژنل ڈائریکٹر لوکل فنڈ آڈٹ ملتان، نواز شریف یونیورسٹی آف اگریکلچر کا کاریگر ٹریژار، سیکریٹری بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اور یونیورسٹی کے ریذیڈنٹ آڈیٹر شامل تھے جبکہ محمد کامران کو سیکریٹری برقرار رکھا گیا۔ اس بار دو ٹی او آرز کی بجائے 11 ٹی او آرز بنائے گا جن میں سات دن کے اندر رپورٹ جمع کرانے، کسی یونیورسٹی ملازم سے پروب کرنے کی اجازت دینے، اس بات کا تعین کرنے کہ کیا یونیورسٹی کے ڈویلپمنٹ فنڈ سے کمپیوٹر خرید کئے جا سکتے ہیں، آیا یونیورسٹی یا یونیورسٹی سے باہر کسی کمپیوٹر ایکسپرٹ کی مدد سے یہ معلوم کرنا کہ آیا خریدے گئے کمپیوٹر سپیسیفیکیشنز کے مطابق ہیں۔
، کیا تمام بڈرز کو یکساں مقابلے کی فضا مہیا کی گئی تھی، کیا خریداری پنجاب پروکیورمنٹ رولز 2014 کے مطابق کی گئی ہے، کیا واقعی کمپیوٹر خریدنے کی ضرورت تھی، کسی چیز کی خریداری کے حوالے سے پروکیورمنٹ منیجمنٹ کمیٹی کے سکوپ کا تعین کرنا اور آئی ٹی ایکوئپمنٹس کی خریداری کے لئے فنڈز کی فراہمی کے ذریعے کا تعین کرنا شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق چونکہ پہلی کمیٹی کے ٹی او آرز میں ذمہ داران کا تعین کرنے کا ٹاسک سونپا گیا تھا اور سب سے بڑی ذمہ داری خود ڈاکٹر کلثوم پراچہ پر عائد ہوتی تھی اس لئے اس کمیٹی کو کام نہیں کرنے دیا گیا اور ڈاکٹر مختار کی معاونت سے نئی کمیٹی تشکیل دیدی گئی جس کی رپورٹ کو سیندیکیٹ ممبران نے تسلیم کرنے سے انکار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ اپنی بیماری کے باعث محض ایک دن کے لئے یونیورسٹی حاضر ہونے والی نئی وائس چانسلر ڈاکٹر فرخندہ منصور کی عدم موجودگی میں ڈاکٹر مختار نے ڈاکٹر کلثوم پراچہ کو ہر ممکن سہولت کاری فراہم کی اور اسلام آباد میں رہائش پذیر اور زیرعلاج ڈاکٹر فرخندہ کی بیماری کو چھپانے کے لئے ایچ ای سی ہیڈ آفس میں اپنی سرپراستی میں سینڈیکیٹ کا ایک متنازعہ اجلاس 3 اپریل کو منعقد کروایا جس میں دوسری کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں 145 کمپیوٹرز اور 4 ملٹی میڈیا پروجیکٹرز کی خریداری کے لئے مالی سال 2024-25میں فنڈز رکھنے کی منظوری کے لئے منٹس 10 اپریل کو یونیورسٹی انتظامیہ نے جاری کر دئیے۔
جس پر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر محکموں کے نمائندوں نے اعتراض کیا کہ ایسی کوئی منظوری نہ دی گئی ہے، ایچ ای ڈی کی جانب سے یونیورسٹی وائس چانسلر کو 14 اپریل کو لکھے گئے خط میں واضح کیا گیا کہ ایجنڈے کا ایٹم نمبر 5 منظور نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ ہدایت کی گئی تھی کہ معاملے ایف اینڈ پی سی کو فورا بھیجا جائے اور فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کی سفارشات کے بعد دوبار سینڈیکیٹ میں پیش کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق موٹا کمیشن کمانے کے چکر میں وومن یونیورسٹی ملتان کی پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے خود کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی منظوری سے کروڑوں روپے کی خریداری میں مالی بے ضابطگیوں پر خود ہی انکوائری کی منظوری دیکر ڈاکٹر پراچہ نے انصاف کا مذاق اڑایا ۔ان کا کہنا تھا کہ ٹینڈر کی منظوری، سپلائی آرڈر کا اجرا، اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کو کی جانے والی ادائیگیوں کی منظوری سمیت تمام انتظامی و مالی اقدامات ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے دستخط سے انجام دیے گئے مگر جب بعد ازاں اس فنڈنگ کی تفصیلات کو منظوری کے لیے ایچ ای سی کو بھجوایا گیا تو کمیشن نے دستاویزات میں پائے گئے تضادات اور شفافیت کے فقدان کی بنیاد پر معاملے کو مشکوک قرار دے کر یونیورسٹی کو تحقیقات کا حکم دیا۔
انہوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس اہم مالی معاملے کی تحقیقات کے لیے جو ابتدائی پروب کمیٹی تشکیل دی، اس کی منظوری بھی ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے خود دی—یعنی جس اتھارٹی کے دستخط اور منظوریوں سے پورا معاملہ کھڑا ہوا، وہی اس سلسلے میں ہونے والی تحقیقات کی سربراہی کر رہی ہے۔ یونیورسٹی حلقوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کسی آزاد عدالتی یا اعلیٰ حکومتی کمیشن سے کروائی جائیں تاکہ اس سکینڈل میں ملوث ہر شخص کو قانون کے مطابق جواب دہ بنایا جا سکے۔
بصورت دیگر، اس طرح کی دوستانہ انکوائریاں نہ صرف بدعنوانی کو تحفظ دیتی ہیں بلکہ قومی وسائل کے ضیاع کا تسلسل کا باعث بھی بنتی ہیں ۔اس سلسلے میں روزنامہ بیٹھک نے جب پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ، چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار اور ترجمان یونیورسٹی کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو وہ رابطے میں نہ آ سکے۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں