ریاست پاکستان میں تعلیم اور صحت کے کاروبار سے زیادہ منافع بخش کاروبار کوئ نہی ہے بڑے بڑے گروپ آف سکولز ریاست کے تمام قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اپنی مرضی سے فیسیں اور فیسوں سے زیادہ دیگر اخراجات وصول کرتے ہیں اور انہیں پوچھنے والا کوئ نہی ہے کہ وہ کیا پڑھا رہے ہیں اور سکولوں کا ماحول کیسا ہےکیونکہ پوچھنے والوں کے اخراجات بھی وہ پورے کر دیتے ہیں جنوبی پنجاب میں یوں تو صنعتیں اور کاروبار اپر پنجاب کی طرح نہی ہیں لیکن مظفر گڑھ خان گڑھ اور علی پور میں تعلیم کے سوداگروں کا کاروبار عروج پر ہے یہاں قائم اقامتی تعلیمی اداروں میں پورے ملک سے والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹر اور انجینیر بنانے بھیجتے ہیں سوائے داخلے کے وقت کے والدین ان اداروں میں کبھی نہ آتے ہیں نہ انہیں کبھی یہ علم ہوتا ہے کہ ان تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کا کیا ماحول ہے یہ ادارے بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں اور ہر سکول کے باہر بورڈ میں پہلی دوسری تیسری پوزیشن حاصل کرنے والوں کی لمبی لسٹ آویزاں ہوتی ہے اور ہر ادارہ پوزیشن حاصل کرنے کا دعویدار ہوتا ہےان تعلیمی اداروں میں اور کے ہاسٹلز میں غلط ماحول کی خبریں اکثر سامنے اتی رہتی ہیں لیکن محکمہ تعلیم کی جانب سے کبھی کسی ادارے کے خلاف جسی قسم کی کاروائ عمل میں نہی لائ گئیصوبائ حکومت اور محکمہ تعلیم کے واضح احکامات کے باوجود علی پور میں قائم بڑے ادارے راشد منہاس سکول آصف سلیم سکول پنجاب کالج میرٹ کالج میں ایک سے ڈیڑھ ماہ تک کی چھٹیاں کی گئیں اور جولائ کے دوسرے ہفتے سے تمام کلاسز باقاعدگی سے شروع ہیں لیکن محکمہ تعلیم کی جانب سے کسی قسم کی کوئ کاروائ عمل میں نہی لائ گئی اور اب ڈی ای او ایجوکیشن انکاری ہیں کہ کسی سکول میں کلاسیں لگ رہی ہیں کلاسیں اس لییے لگتی نظر نہی ارہیں کیونکہ محکمہ تعلیم کی دیہاڑیاں لگ رہی ہیںگزشتہ دنوں راشد منہاس سکول کے باہر طلبہ کی لڑائ میں فائرنگ سے ایک بچہ زخمی ہوگیا اس سے اگلے روز الفلاح سکول کے باہر بھی طلبہ میں مار پیٹ ہوئ ایسے واقعات توتر سے ہوتے رہتے ہیں اب نوبت فائرنگ تک آگئی ہےان تعلیمی اداروں کے ماحول خراب ہورہے ہیں سکولوں کے باہر اوباش لڑکے منڈلاتے پھرتے ہیں اور بچوں کو تنگ کرتے ہیں لیکن سکول اپنی ساکھ بجانے کے لیے معاملات دبا دیتے ہیں اور نہ خود کوئ کاروائ کرتے ہیں نہ ہی پولیس یا محکمہ تعلیم کو کرنے دیتے ہیں تاکہ سکول کا نام بدنام نہ ہو بچوں کا کردار اور مستقبل چاہے خراب ہو جائے بنیادی زمہ داری والدین کی ہے کہ وہ دیکھیں کہ ان سکولوں میں بچوں کو کیا ماحول فراہم کیا جارہا ہے ہاسٹل میں کھانا کیسا ہے ہاسٹل کا ماحول کیسا ہے لیکن والدین کو اس کی فرصت نہی ملتی اس کے بعد زمہ داری محکمہ تعلیم کی ہے کہ وہ ان شکایات پر کاروائی کرے لیکن ضلع مظفر گڑھ کے محکمہ تعلیم کے افسران نے ان اداروں کی جانب سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ یہ کتنی فیسیں وصول کر رہے ہیں اور ان اداروں کا کیا ماحول ہے چھٹیوں کے واضح احکامات کے باوجود کلاسیں لگ رہی ہیں لیکن کوئ پوچھنے والا نہی تو آج نوبت فائرنگ اور طالب علم کے زخمی ہونے تک پہنچ گئی ہے محکمہ تعلیم شاید انتظار کر رہا ہے کہ کل کسی ماں کا چراغ گل ہوجائے تو وہ بھی کاروائی ڈالنے آجائیں۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں