تونسہ شریف میں قیصرانی قبائل کا جرگہ: میر بادشاہ قیصرانی کا امن کے حق میں مؤقف
تونسہ شریف(رؤف قیصرانی) قیصرانی قبائل کی بلوچی روایات کی پامالی ناقابل برداشت ہے اور اس حوالے سے ریاستی اقدامات ناکافی ہیں۔ پرامن قبائل پر جنگ مسلط کی گئی تو اس کی حدت سے پنجاب سمیت ملک بھر کو تکلیف پہنچے گی۔
ریاست کو اس مسئلے میں اپنا مکمل اور مثبت کردار ادا کرے۔ جیسا کہ میر بادشاہ قیصرانی نے باجھہ میں اپنی تقریر میں کہا ہے کہ قیصرانی قبائل کی کسی بھی قبیلے اور نظریے سے کوئی دشمنی نہیں ہے اس لیے ہماری روایات اور پرامن زمیں زادوں کو کمزور سمجھ کر ان کی تذلیل نہ کی جائے۔ ہم ایک ریاست کے شہری ہیں اور ہمارے امن و امان ، چادر چاردیواری اور عزت نفس کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہےاس لیے وہ ذمہ داری مکمل طور پر انجام دے۔
ریاستی بیگانی کے ماحول میں میر بادشاہ قیصرانی کا بستی باجھہ پہنچنا اور قبائلی جرگے کا اعلان کرنا وقت کی ضرورت اور اہم پیش رفت ہے۔ تونسہ کے دیگر قبائل کو بھی امن کی اس جدوجہد میں میر بادشاہ اور قیصرانی قبائل کا ساتھ دینا چاہیے۔ ہمارے علاقے کو سوچی سمجھی سازش کے تحت سیاسی آئسولیشن میں ڈالا گیا اور نام نہاد مادیت پرست دنیاداروں نے اپنے مادی مفادات کے تحفظ کیلئے اقتدار حاصل کرنے کیلئے نفرت کو ہوا دی۔جس کے نتائج اب قبیلہ بھگت رہا ہے۔
مادی اشیاء اور اشیاء خردونوش کے لالچ دے کر ایک طرح سے ووٹوں کی منڈی لگائی گئی اور شخصیت پرستانہ رجحانات کو ہوا دے کرسیاسی و سماجی تاریخی اخلاقیات کو پاؤں میں روند دیا گیا۔ نام نہاد اقتدار تو مل گیا لیکن اس کی قیمت مزید جہالت، غربت ، پسماندگی اور امن عامہ کی خراب صورتحال کی صورت میں نکلا۔ اس کے علاوہ ایک گزارش یہ بھی ہے کہ جانے انجانے میں میر بادشاہ قیصرانی بار بار قوم قیصرانی کا لفظ استعمال کر رہے تھے ان کو بھی تصحیح کرنی چاہیے کہ قیصرانی بلوچ قوم کا ایک مہذب، لٹریری، امن پسند اور شاندار قبیلہ ہے نہ کہ بذات خود کوئی قوم۔ لفظ باقاعدہ زندگی رکھتے ہیں اور لفظ روح بھی رکھتے ہیں اس لیے الفاظ کے برتاؤ میں باقاعدہ احتیاط لازم ہے۔
میر بادشاہ قیصرانی کے اس مثبت اقدام کے باوجود یہی درخواست ہے کہ قبائلی جرگہ بلانے کے ساتھ ساتھ اس نامعلوم جنگ کا باقاعدہ حصہ بننے کی بجائے ریاست سے اپنا مطالبہ دہرائیں کہ اس قبیلے کے امن کو ہر حال میں برقرار رکھنے کیلئے ریاست اپنی ذمہ داری نبھائے۔
باقی امن کی ہر خواہش قابل تحسین ہے اور قیصرانی قبائل سمیت دیگر قبائل کے نوجوان اور انسان دوست طبقات اس جدوجہد میں یقینی طور پر میر بادشاہ قیصرانی کے ساتھ ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی اس دلیرانہ اور قائدانہ کوشش کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بے پناہ سیاسی اختلافات کے باوجود ان کا یہ اقدام بحرحال قبیلے کے دفاع اور سرزمین کے دفاع کیلئے اہم ہے لیکن بات پھر وہیں آئے گی کہ امن کی بحالی کا مطالبہ ریاست سے کرنا چاہیے چاہے کوئی قبائلی طور پر اتنی طاقت ہی کیوں نہ رکھتا بھی ہو کہ حملہ آوروں کا مقابلہ کر سکے۔
اتحاد ، یکجہتی اور تدبیر کے ذریعے سازشوں کا مقابلہ کرنا ہو گا کیونکہ میرے خیال یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا کہ بظاہر نظر آ رہا ہے اس لیے انتہائی تدبر اور مشاورت سے اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امن کے پیامبروں کی ہمیشہ خیر ہو کہ امن ہی انسانی ارتقاء کیلئے آخری آفاقی سچائی ہے۔
جہاں دفاع اور امن بنیادی انسانی حق اور قبائلی معتبرین اور ریاستی ذمہ داران کی ذمہ داری ہے وہیں تصادم اور جنگ سے عام قبائلی انسانوں کو بچانا بھی قبائلی معتبرین کی ذمہ داری ہے اس لیے ہر قدم پھونک پھونک کے رکھنے کی ضرورت ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ “جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی۔۔۔ جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے”۔
یوٹیوٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں