ملتان میں ن لیگ کی پوزیشن مدمقابل سیاسی جماعتوں کی نسبت کافی کمزور

ملتان (بیٹھک سپیشل/عبدالستار بلوچ) کیا ملتان ن لیگ کا قبرستان بننے جا رہا ہے یہ وہ سوال ہے جو ملتان کی سیاست پر نظر رکھنے والے لوگ ایک دوسرے سے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آخر ایسے کون سے اسباب اور وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مسلم لیگ ن جو چند ہفتے قبل ملتان کے سیاسی منظر نامے پر سب سے مضبوط جماعت کے طور پر دکھائی دے رہی تھی اور آج سب سے کمزور پوزیشن پر کھڑی دکھائی دے رہی ہے اس حوالے سے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی ملتان سے پسپائی کا عمل ٹکٹوں کی تقسیم سے شروع ہو کر ٹکٹوں کی تقسیم پر ختم ہوتا ہے مسلم لیگ ن نے حلقہ این اے 148 سے پی ٹی آئی چھوڑ کر ن لیگ جوائن کرنے احمد حسین ڈیہڑ کو دیا، بار بار اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی وجہ سے احمد حسین ڈیہڑ کی شخصیت عوام میں اپنا موثر امیج برقرار رکھنے میں ناکام رہی جبکہ حلقے کی عوام کو احمد حسین ڈیہڑ کی بار بار سیاسی جماعتیں تبدیل کرنے کی ادا ہرگز پسند نہ آئی۔مسلم لیگ ن کے پاس اس حلقے سے پارٹی میں سے کوئی ایسا امیدوار نہیں تھا جو پارٹی ٹکٹ کا شدت سے خواہشمند ہوتا لہٰذا پارٹی کے اندر سے احمد حسین ڈیہڑ کو ٹکٹ دینے کے خلاف کسی قسم کی کوئی مزاحمت یا مخالفت نہیں ہوئی احمد حسین ڈیہڑ کے مقابلے میں سابق وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن مسلم لیگ ن کی ٹکٹ حاصل کے خواہشمند تھے لیکن احمد حسین ڈیہڑ نے پی ٹی آئی سے اس وقت اپنی راہیں جدا کی تھیں جب ابھی پی ٹی آئی حکومت میں تھی اور احمد حسین ڈیہڑ کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کرا دی گئی تھی اس لئے نواز شریف چاہتے ہوئے بھی سکندر بوسن کو ٹکٹ نہ دلوا سکے جبکہ سکندر بوسن نے بھی اپنی صحت کے پیش نظر ٹکٹ کے لئے زیادہ لابنگ نہیں کی اور اپنے بھائی شوکت بوسن کے لئے صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ پر قناعت کر لی۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جیسی بھاری بھرکم سیاسی شخصیت اور پی ٹی آئی کی مقبولیت کو کیش کرانے والے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار بیرسٹر تیمور مہے کی موجودگی میں احمد حسین ڈیہڑ کی پوزیشن نہایت کمزور ہے۔این اے 149 پر مسلم لیگ ن نے استحکام پاکستان پارٹی کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کی حمایت کا اعلان کیا ہے جہانگیر کی حمایت کی وجہ سے شیخ طارق رشید کو ٹکٹ نہ مل سکا اور شیخ طارق رشید کو اکاموڈیٹ کرنے کے لئے پی پی 217 کا ٹکٹ دیا گیا جہانگیر ترین کے نیچے پی پی 216 بابر شاہ ایک کمزور امیدوار ہےجسے مبینہ طور پر سلمان نعیم کی سفارش پر جہانگیر ترین نے ٹکٹ لے کر دیا جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کا ورکر بہت زیادہ بدظن ہے۔ بابر شاہ کے مقابلے میں عامر ڈوگر کا چھوٹا بھائی عدنان ڈوگر پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ امیدوار ہے جس کی پوزیشن بابر شاہ کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ن لیگ کی قریشی برادری سے تعلق رکھنے والے حاجی ندیم قریشی بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑ رہا ہے جس کا نقصان ن لیگ کے امیدوار جہانگیر ترین کو ہو رہا ہے جبکہ عامر سعید انصاری کو ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے اس حلقے میں مؤثر ووٹ بینک رکھنے والی انصاری برادری بھی بابر شاہ کو ووٹ نہیں دینا چاہتی جس کا فائدہ اوپر عامر ڈوگر اور نیچے عدنان ڈوگر کو ہو رہا ہے۔ انصاری برادری پی ٹی آئی کی جانب کافی زیادہ رحجان رکھتی ہے اس لئے مجموعی طور پر جہانگیر ترین کی پوزیشن عامر ڈوگر کے مقابلے اس صوبائی حلقہ میں کافی کمزور ہے جب کہ حلقہ پی پی 215 میں پیپلز پارٹی کے امیدوار شکیل لابر کی پوزیشن اورکمپین کافی موثر رہی ہے اسی طرح پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدوار معین قریشی کو پی ٹی آئی کا سب سے زیادہ ووٹ بینک رکھنے والے حلقے سے الیکشن لڑنے کا ایڈوانٹیج ہے اس لئے پی پی 215 میں بھی مسلم لیگ ن کی پوزیشن کافی کمزور ہے جس کی وجہ سے جہانگیر ترین کا پٹھان برادری کے ووٹ ملنے کے باوجود شکست سے دوچار ہونے امکان ختم ہوتا دیکھائی نہیں دیتا۔ این اے 150 ملتان شہر کا وہ حلقہ ہے جسے ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا رانا محمود الحسن کی جانب سے پیپلز پارٹی میں شمولیت سے ن لیگ کا اس حلقے سے زور ٹوٹ گیا ہے اور اس کا امیدوار حاجی جاوید انصاری مسلم لیگ ن کی ٹکٹوں کی تقسیم اور دیگر معاملات میں سلمان نعیم کی مبینہ بے جا مداخلت کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے مختلف دھڑوں کی کھلی اور ڈھکی چھپی مخالفت کا سامنا کر رہا ہے حلقہ پی پی 216 سے مسلم لیگ ن شیخ طارق رشید کو ٹکٹ جاری کیا ہے جبکہ اس حلقے سے سابق صوبائی وزیر حاجی احسان الدین قریشی کو ٹکٹ نہ دیا گیا ہے پی پی 217 کا کافی حصہ اندرون شہر پر مشتمل ہے جہاں قریشی برادری سب سے زیادہ ووٹ بینک رکھتی ہے تاہم شیخ برادری کی دو شاخیں جن میں سے ایک جھاجھری شیخ اور دوسرے روہتکی شیخ کہلاتے ہیں حاجی احسان الدین قریشی کے علاؤہ اختر عالم قریشی بھی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے خواہشمند تھے جھاجھری شیخوں کے مقابلے میں روہتکی شیخوں کا ووٹ بینک کہیں زیادہ ہے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار ندیم قریشی بھی روہتکی شیخ ہیں اس لئے طارق رشید کو ایک کمزور امیدوار سمجھا جا رہا ہے شیخ طارق رشید کی کمزور پوزیشن کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار حاجی جاوید انصاری کو پی پی 217 سے زیادہ ووٹ ملنے کے امکانات کافی کم ہیں کیونکہ روہتکی اور جھاجھری دونوں شیخ برادریاں یہ ہرگز نہیں چاہتیں کہ انصاری برادری کا کوئی فرد یہ سیٹ جیت جائے اور شیخوں کے ہاتھ سے یہ سیٹ ہمیشہ کے لئے نکل کر انصاریوں کے ہاتھ چلی جائے توقع کی جا رہی ہے کہ اندرون شہر سے رانا محمود الحسن اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار زین قریشی بھی اپنے اپنے حصے کا ووٹ لینے میں کامیاب رہیں گے اس حلقے سے رانا محمود الحسن، زین قریشی اور حاجی جاوید انصاری کے بیچ سخت مقابلے کا امکان ہے رانا محمود الحسن جنہیں ن لیگ نے ٹکٹ کے لئے لٹکائے رکھا اور آخر میں سلمان نعیم کی مداخلت پر ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور دیر سے اپنی کمپین کے لئے نکلے شروع میں رانا محمود الحسن کو ایک کمزور امیدوار تصور کیا جا رہا تھا مگر آخری ہفتے رانا محمود الحسن کیکمپین کافی موثر رہی جس کی وجہ سے وہ مقابلے میں آ گئے اور یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ وہ یہ سیٹ جیت جائیں تاہم حاجی جاوید انصاری کو پی ٹی آئی سے ن لیگ میں شامل کرانے والی طاقتیں حاجی جاوید انصاری کی جیت کی خواہش مند ہیںاین اے 151 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی، پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ امیدوار سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہربانو قریشی اور مسلم لیگ ن کے عبد الغفار ڈوگر امیدوار ہیں۔غفار ڈوگر نے محکمہ زراعت فیم رانا اقبال سراج کو حلقہ پی پی 220 سے پارٹی ٹکٹ نہ لینے دی جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو اور خود عبد الغفار ڈوگر کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے اور غفار ڈوگر کی پوزیشن بہت کمزور ہو گئی اور وہ مقابلے سے تقریباً باہر ہو چکے ہیں پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر اختر ملک کو ن لیگ کا ٹکٹ لیکر دینا بھی غفار ڈوگر مہنگا پڑ گیا۔این اے 152 پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بڑے بیٹے عبد القادر گیلانی پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے جاوید علی اپنی قسمت آزمائی کر رہے ہیں جاوید علی شاہ نے اپنے بھائی مجاہد علی شاہ، مسلم لیگ ن کے صوبائی اسمبلی کے شجاع آباد سے امیدوار رانا اعجاز نون کے مقابلے میں کھڑا کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے رانا اعجاز نون، جاوید علی شاہ کی جیت کے لئے کوشش کوشش کرنے کی بجائے ان کی شکست کے لئے متحرک ہیں سابق ممبر قومی اسمبلی ابراہیم خان کا بھتیجا عمران شوکت پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ امیدوار ہے این اے 153 جلالپور والا کا حلقہ ہے ڈاکٹر ریاض لانگ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ہیں جبکہ رانا قاسم نون مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں لنگاہ گروپ کے قاسم لنگاہ آئی پی پی کے امیدوار ہیں جبکہ دیوان عاشق بخاری بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں یہ واحد حلقہ ہے جہاں سے مسلم لیگ ن کی جیت کو یقینی سمجھا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ قاسم نون کے روایتی گروپوں لنگاہ گروپ اور بخاری گروپ کے آپس کے اختلاف اور رانا قاسم نون کی جانب سے مبینہ طور پر مرضی کی حلقہ بندی کرانا ہے۔ ان تمام وجوہات کی وجہ سے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ملتان ن لیگ کا قبرستان بننے جا رہا ہے۔پیپلز پارٹی ملتان سے علی حیدر گیلانی، شکیل لابر، رضوان عابد تھہیم، رانا سجاد، رانا اقبال سراج، رانا طاہر شبیر، واصف ران، کامران عبداللہ مغل اور بیرسٹر مدثر شاہ اچھی پوزیشن کے حامل ہیں اور الیکشن جیت سکتے ہیں سیاسی تجزئیے اور تبصرے اپنی جگہ پولنگ ڈے کو ووٹرز کا موڈ کوئی بھی رخ اختیار کر سکتا ہے لیکن ن لیگ کی پوزیشن اپنی دونوں مدمقابل سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے مقابلے میں کافی کمزور ہے اور بظاہر مقابلہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی امیدواروں کے درمیان ہے

اپنا تبصرہ لکھیں